عبادت کا مفہوم اور عقیدے کے ساتھ تعلق

سوالنمبر1

عبادت کا مفہوم واضع کرتے ہوئے اس کے عقیدے کے ساتھ تعلق پر نوٹ لکھیں؟

جواب:

عبادت عربی زبان کے لفظ ’’عبد‘‘ سے مشتق ہے اور اس کا معنی آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے۔

امام راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں

’’عبادت عاجزی و فروتنی کی انتہا کا نام ہے۔‘‘

عبادت عاجزی و تعظیم کی آخری حد کا نام ہے آخری حد کی تعظیم کا اظہار صرف اُسی ہستی کے لئے رَوا ہے جو معبودِ برحق ہے۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، تفسیر منہاج القرآن میں عبادت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

"عبادت، صرف ایسے فعل کا نام ہے جو کسی کی نسبت معبود ہونے کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کے لیے تعظیم، عاجزی اور فروتنی کے اظہار کی خاطر صادر ہو۔"

یہ بات کہ انسان کی زندگی کا مقصد خدا کی عبادت ہے، اس بات سے تضاد نہیں رکھتی کہ انبیا کی بعثت کا مقصود تزکیۂ نفوس ہے یا یہ کہ عبادات و عقائد سے مقصود اعلیٰ سیرت و کردار کو نشوونما دینا ہے۔ یہ ساری باتیں ایک ہی سلسلہ کی مربوط کڑیاں ہیں۔

خدا کی عبادت اس اعتبار سے تو بلاشبہ انسانی زندگی کا اصل نصب العین ہے کہ سب سے بڑا حق واجب ازروے عقل و فطرت اور ازروے دین و شریعت انسان پر یہی ہے۔ لیکن یہ حقیقت آپ جیسے اصحاب فکر و نظر سے مخفی نہیں ہو سکتی کہ خدا کی عبادت اس لیے مطلوب نہیں ہے کہ خدا اس کا محتاج ہے، بلکہ اس لیے مطلوب ہے کہ ہم اس کے محتاج ہیں۔ اسی چیز سے ہماری زندگی کو حقیقی ارتقاء کے لیے وہ سہارا ملتا ہے۔

 جس سے ہماری وہ تمام عقلی و روحانی اور تمام علمی و عملی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں جو ہمارے اندر قدرت نے ودیعت کی ہیں۔ اگر یہ سہارا میسر نہ آئے تو اول تو ہماری زندگی کی اصلی صلاحیتیں بالکل سکڑ کے رہ جاتی ہیں اور اگر کچھ پھیلتی بھی ہیں تو غلط سہارے پکڑ لینے کے سبب سے بالکل غلط سمتوں میں پھیل جاتی ہیں۔ اگر عبادت الٰہی (واضح رہے کہ 'عبادت' کا لفظ میں اس کے حقیقی اور وسیع معنوں میں لے رہا ہوں) اصلی نصب العین کی حیثیت سے پیش نظر رہے تو زندگی اس قسم کی کوتاہیوں اور کج رویوں سے محفوظ رہنے کی وجہ سے اس پودے کے مانند پروان چڑھتی ہے جس کو زمین اور فضا، دونوں سے بھرپور غذا حاصل ہو رہی ہے۔

انبیا علیہم السلام تزکیۂ نفوس کی جو خدمت انجام دیتے ہیں، اس میں ان کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ہماری زندگی کے رخ کو خدا کی طرف سیدھا کرتے ہیں۔ اس کو صحیح کرنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے: ایک تو یہ کہ ہمارے عقائد و نظریات ہر قسم کی کج رویوں اور ضلالتوں سے بالکل محفوظ ہو کر توحید خالص کی چٹان پر اس طرح قائم ہو جائیں کہ فساد علم و نظر کی کوئی آندھی ان کو ان کی جگہ سے ہلا نہ سکے۔ دوسری یہ کہ ہمارے اعمال و اخلاق جذبات و خواہشات کی اندھی پیروی سے آزاد ہو کر اعلیٰ عقائد و نظریات یا بہ الفاظ دیگر ہمارے اصلی نصب العین (خداپرستی) سے بالکل ہم آہنگ ہو جائیں۔

اس روشنی میں دیکھیے تو یہ حقیقت بالکل واضح ہو کر سامنے آ جائے گی کہ انسانی زندگی کے صحیح ارتقا کا انحصار اس امر پر ہے کہ اس کا رخ پوری یک سوئی کے ساتھ خدا کی طرف ہو جائے۔ اس نصب العین کے حصول میں عقائد و عبادات، انسان کے سب سے بڑے معاون ہیں اور چونکہ ان میں سے کسی چیز کو بھی اس لیے ضروری نہیں ٹھہرایا گیا ہے کہ خدا کو اس کی ضرورت ہے، اس لیے کہ خدا ہر قسم کی ضرورت سے مستغنی ہے، اس وجہ سے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان ساری چیزوں سے خود انسان ہی کی ذات کی تکمیل ہوتی ہے اور ان عقائد و عبادات سے وہ اپنے آپ کو ان مکارم اخلاق سے آراستہ کرتا ہے جو اس کو خلق اور خالق، دونوں سے صحیح نسبت بخشنے والے ہوتے ہیں۔

آپ نے علماے نفسیات کے جس نقطۂ نظر کا حوالہ دیا ہے، بجاے خود اس سے اختلاف کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ بات تو قرآن مجید میں بھی ہے کہ 'وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا'، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اپنے نفس یا بہ الفاظ دیگر اپنی ذات اور شخصیت کی اصلاح و تعمیر ہی انسان کا اصل مقصد ہونا چاہیے۔ یہی چیز ہے جس کے متعلق قیامت کے دن اس سے مواخذہ ہونا ہے اور اسی چیز سے متعلق اس کو ایک حد تک اختیار ملا ہوا ہے۔ البتہ یہ سوال ہمارے اور ان علماے نفسیات کے درمیان اختلافی اور نزاعی ہے کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر کا یہ نصب العین حاصل کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اس کا صحیح طریقہ وہی ہے جو حضرات انبیا علیہم السلام نے اختیار فرمایا ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ایسا نہیں ہے جو خطرات سے محفوظ ہو۔ میں نے اس مسئلہ پر اپنی کتاب ''تزکیۂ نفس'' میں تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ امید ہے وہ آپ نے پڑھی ہو گی۔

Previous Post Next Post